ADBI BATHAK Ilhad ka ta’aruf ,Tareekh or Aqsaam

Ilhad ka ta’aruf ,Tareekh or Aqsaam

Rad e ilhad

الحاد کا تعارف تاریخ اور اقسام

تحریر :مفتی لقمان اختر

الحاد کی تعریف

الحاد کے معنی سیدھے راستے سے کتر جانا، دین حق سے پھر جانا، ملحد ہو جانا ۔ علامہ ابن منظور الحاد کے معنی کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ” الملحد العادل عن الحق المدخل فيه ما لیس فیہ ” یعنی ملحد اس شخص کو کہتے ہیں جو حق سے روگردانی کرے اور اس میں ایسی چیز کی آمیزش کرے جو اس میں نہیں ہے، اس کا ایک اور مفہوم بھی بتایا گیا ہے : یلحدون اي يعترضون ۔ یعنی وہ اعتراض کرتے ہیں۔
مریم ویبسٹر ڈکشنری کے مطابق:
” The belief that there is no God*
ایسا عقیدہ جس میں کسی خدا کا تصور موجود نہ ہو “
جولین بیجینی نے
“Atheism: A Very Short Introduction”
میں الحاد کی تعریف اس طرح بیان کی ہے۔
“Iy is the belief that there is no God or Gods”
“ایک خدا یا کسی بھی خدا کو نا ماننے کا نام ایتھیزم یا الحاد ہے “
الحاد کا بنیادی مفہوم یہی ہے کہ ایسا عقید رکھنا کہ خدا اور سول اور آخرت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے.

الحاد بطور گمان:

نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں بیشتر وہ لوگ تھے ، جو کسی نہ کسی صورت میں خدا کو مانتے تھے۔ لیکن چند لوگ ایسے بھی تھے جو خدا کے منکر تھے۔ ان کا تذکرہ قرآن کی سورت جاشیہ میں ہوا ہے :
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ
ترجمہ: اور یہ قیامت کے منکر یوں کہتے ہیں کہ ہماری اس دنیوی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں ہے، ہم مرتے اور جیتے نہیں ہیں اور ہم کو کوئی نہیں مارتا مگر زمانہ اور ان منکروں کے پاس اپنے اس کہنے پر کوئی دلیل نہیں ہے یہ لوگ محض خیالی باتیں کیا کرتے ہیں “
اللہ رب العالمین نے اس دہریت کا جواب یہاں صرف یہ دیا ہے کہ ان حضرات کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، عصر حاضر کی دہریت کی حقیقت بھی یہی ہے ، بلا ثبوت رائے کوئی بھی بنا سکتا ہے، جیسا یہ لوگ فقط گمان کی بنیاد پر اندازے لگارہے ہیں جیسا کہ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دہریوں نے بنا رکھی تھی۔

الحاد کی تاریخ:

الحادی فلسفہ کوئی نیا نہیں ہے ، اس کی تاریخ بہت پرانی ہے، نمرود کا ابراہیم علیہ السلام کے سامنے انا أحي وأميت کا دعوی اور فرعون كا انار بكم الأغلى کا نعرہ بھی در اصل نظریہ الحاد کی سوچ کو تقویت دیتا ہے۔ قرآن میں الحاد کی طرف اس طرح اشارہ کیا گیا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَاؕ-اَفَمَنْ یُّلْقٰى فِی النَّارِ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ یَّاْتِیْۤ اٰمِنًا یَّوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْۙ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (سورہ فصلت 40)
ترجمہ:
بیشک جو لوگ ہماری آیتوں میں سیدھی راہ سے ہٹتے ہیں وہ ہم پر پوشیدہ نہیں ہیں تو کیا جسے آ گ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت میں امان سے آئے گا۔ تم جو چاہو کرتے رہو،بیشک اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
پہلے زمانے میں مذہب کے مقابلے میں الحاد و دہریت کا پھیلاؤ اس لیے بھی کم رہا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اللہ تعالی کے پیغام کی تبلیغ کیا کرتے تھے ، جب کہ ملحد الحاد کے کبھی داعی نہیں رہے، اس لیے ایک جانب توحید کے دعوے دار تھے اور دوسری جانب کسی نہ کسی صورت میں شرک پر عمل پیرا تھے ، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑے مذاہب میں صرف بدھ مت ہی ایسا مذ ہب ہے جس میں کسی خدا کا تصور نہیں پایا جاتا۔
الحاد کو با قاعدہ نظریہ کے طور پر شناخت 17ویں صدی میں ملی،
17ترہویں صدی عیسوی سے قبل سائنس کی تحقیق کا مقصد تحقیقِ کائنات تھا لیکن 17ویں صدی عیسوی کے بعد سائنس کا مقصد تسخیرِ کائنات بن گیا، حقیقت اعلیٰ کی تلاش ختم ہو گئی کیونکہ نفس انسانی کو ہی اصل حقیقت قرار دیا گیا، لہذا فلسفہ جدید میں سب سے بڑی حقیقت یعنی اقتدار اعلی ( بھگوان ، خدا، کرشن ، دیوتا) کوئی نہیں بلکہ انسان ہی کو سمجھ لیا گیا۔
“کانٹ کی دلیل یہ تھی
“I think therefore I am”
میں سوچ سکتا ہوں اس لیے میں ہوں۔
اس نے کہا کہ کائنات میں صرف میرا وجود یقینی ہے اس کے علاوہ جو میں دیکھ رہا ہوں ، ہو سکتا ہے وہ خواب ہو مگر یہ طے ہے کہ میں خود تو موجود ہوں جو یہ خواب دیکھ رہا ہے۔
اٹھارویں صدی میں الحادی نظریے کو اُس وقت عروج ملنا شروع ہوا جب یورپ میں مذہب کی مخالفت میں اضافہ ہوا اور سیاسی طور پر بھی مذہب مخالف سوچ نے زور پکڑا،
لیکن انیسویں صدی میں جب چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو قبول عام حاصل ہوا تو گویا الحاد نے ایک مذہب کی صورت اختیار کر لی، جس کار ہنماڈارون تھا اور اس کا نظریہ اس مذہب کی مقدس کتاب قرار پائی،
بس پھر اس صدی میں الحاد کی ترویج شروع ہوئی اور اس کے عالمگیری اثرات سے بشمول اسلامی معاشروں کے پوری دنیا متاثر ہوئی۔
ڈارون کے نظریہ ارتقاء میں الحاد کے نظریاتی اور فلسفیانہ پہلو اہم تھے جس نے خصوصاً الہامی ادیان کے وہ عقائد جن پر ان ادیان کی اساس تھی یعنی وجود باری تعالی ، رسالت اور تصور آخرت پر حملہ کیا۔
لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فکری میدان میں الحاد کو اسلام کے مقابلے میں متوقع کامیابی حاصل نہ ہو سکی البتہ عیسائیت کے مقابلے میں اسے جزوی فتح حاصل ہوئی۔
انیسویں صدی میں الحاد مزید پھیلا۔
بڑے بڑے ملحد مفکرین جیسے مار کس اینجلز ، نٹشے، ڈر خم اور فرائڈ نے سائنس اور فلسفے کی مختلف شاخوں کے علم کو الحادی بنیادوں پر منظم کیا۔
ان میں سے مارکس اور اینجلز ماہر معاشیات (Economist)،
ڈرخم ماہر عمرانیات (Sociologist)،
نٹشے ماہر فلسفہ (Philosopher)،
اور فرائڈ ماہر نفسیات (Psychologist) تھے۔
ہارون یحییٰ الحاد کی ترویج کے حوالے سے ڈارون کا کردار بیان کرتے ہیں:
“الحاد کو سب سے زیادہ مدد ماہر حیاتیات (Biologist) چارلس ڈارون سے ملی جس نے تخلیق کائنات کے نظریے کو رد کر کے اس کے برعکس ارتقا (Evolution) کا نظریہ پیش کیا۔ ڈارون نے اس سائنسی سوال کا جواب دے دیا تھا جس نے صدیوں سے ملحدین کو پریشان کر رکھا تھا۔
وہ سوال یہ تھا کہ ” انسان اور جان دار اشیا کس طرح وجود میں آتی ہیں؟”
اس نظریے کے نتیجے میں بہت سے لوگ اس بات کے قائل ہو گئے کہ فطرت میں ایسا آٹومیٹک نظام موجود ہے جس کے نتیجے میں بے جان مادہ حرکت پذیر ہو کر اربوں کی تعداد میں موجود جان دار اشیا کی صورت اختیار کرتا ہے “۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بے جان مادہ کو حرکت دینے والی ایک ذات موجود ہے اور وہی ذات خالق کا ئنات ہے،
پہلی جاندار اشیاء اور پہلے انسان کو بھی اس نے پیدا کیا”۔
خدا کے تصور کے منکر سائنسدانوں میں ایک بڑا نام اسٹیفن ہاکنگ کا ہے،
۱۹۴۲ء میں انگلینڈ میں پیدا ہونے والے اسٹیفن کو سائنس کی دنیا میں انفرادیت حاصل تھی اور اس انفرادیت کی وجہ اس کی فالج کی بیماری تھی جس کے سبب اس کا جسم اور قوت گویائی بھی ساتھ چھوڑ گئی تھی لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی آنکھوں اور پلکوں کی مدد سے کمپیوٹر کو استعمال کرتے ہوئے سائنسی تصورات پیش کرتا رہا۔
پروفیسر محمد رفعت، اسٹیفن ہاکنگ کے نظریات کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں: ” تخلیق کائنات کے تصور کے بعد اسٹیفن ہاکنگ خدا کے بارے میں گفتگو کرتا ہے کہ ہمیں خدا کے تصور کی ضرورت اس وقت تھی جب سائنس نے ترقی نہیں کی تھی اور ہم کائنات کی توجیہ کے لیے خدا کے تصور کا سہارا لیتے تھے ، اب ہم سائنس کے نظریات و حقائق کو جانتے ہیں اس لیے ہمیں خداکے تصور کی ضرورت نہیں ہے “
یہ خدا کو محض سائنس تک ہی محدود کرتا ہے کہ اب چونکہ سائنس کے میدان میں خدا کی ضرورت نہیں لہذا خدا کے تصور کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ خود اس کی غیر معمولی بیماری میں اس کا غیر معمولی کام خود اس بات کی شہادت کے لیے کافی تھا کہ پہلے صحت بھی خدا کی دی ہوئی تھی اور خدا نے جب چاہا لے لی اور پھر اس مرض میں یہ صلاحیت بھی خدا کی دی ہوئی تھی۔
نظریہ ارتقا کو تقویت ملنے کے بعد کے اثرات کو بیان کرتے ہوئے گسٹیوائی دون لکھتے ہیں:
نتیجتا اللہ کی حکومت اور سلطان کی حکومت الگ الگ پروان چڑھنے لگیں، سیاسی اور سماجی زندگیاں دو سطحوں پر بسر کی جانے لگا لگیں، اللہ کا قانون جو اس نے اپنے بندوں کے لیے وضع کیا تھا، ناکام ہو گیا کیونکہ اس نے تبدیلی کے عصر کو نظر انداز کر دیا تھا یہ ناکامی آج تک چلی آرہی ہے۔
لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ میں الحادی نظریہ کو تقویت در اصل نظریہ ارتقا کی وجہ سے ملی ہے۔
سید جلال الدین عمری اپنےمقالے میں لکھتے ہیں کہ :
زمانہ جدید نے کائنات کی جو توجیہ کی وہ خدا کے تصور سے خالی ہے ، اس نے کہا اس کا ئنات کا کوئی خالق ہے نہ مالک، یہ محض مادہ کا ظہور ہے ، مادہ ہی اس کا خالق ہے ، مادہ ہی نے اتفاق سے ایک نامعلوم عرصے میں مختلف سیاروں اور ستاروں کی شکل اختیار کر لی اس میں یہ ہمارا انتظام شمسی بھی داخل ہے، یہاں پائی جانے والی ساری جاندار اور بے جان چیزیں اور خود انسان کا وجود بھی اسی اتفاق کا کرشمہ ہے ، اس زمین و آسمان میں نہ کہیں خدا کا وجود ہے اور نہ اسے ماننے کی فی الواقع کوئی ضرورت ہے، کائنات کی یہ توجیہ آج کے دور کی علمی و سائنٹیفک توجیہ مان لی گئی۔
یہی وہ مادہ پرستانہ سوچ ہے جو کہ عقل سے ہی متصادم ہے اور اس حوالے سے روز مرہ کے معاملات ہی یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ ایک چھوٹی سی گھڑی کی سوئی بغیر کسی سیل کے آگے نہیں بڑھ سکتی تو اتنی بڑی کائنات کو چلانے کے لیے ایک مادہ کو خدا کے برابر لانے کا تصور کیسے کر لیا گیا ہے۔

الحاد کی اقسام:

ہے۔
دور حاضر میں الحاد کی تین بڑی اقسام ہیں جنہیں مروجہ اصطلاح میں Deism ،Agnosticism Gnosticism کہا جاتا ہے.
1. الحاد مطلق (Gnosticism):
اس سے مراد معرفت یا علم رکھنا، یہ ملحدین کی وہ قسم ہے جو خدا کے انکار کے معاملے میں متشدد ہیں۔ یہ لوگ روح، دیوتا، فرشتے،
جنت و دوزخ اور مذہب سے متعلقہ روحانی امور اور مابعد الطبعیاتی (Meta Physical) امور کو کسی صورت تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا
دعوی ہے کہ وہ اس بات کا اچھی طرح علم رکھتے ہیں کہ انسان اور کائنات کی تخلیق میں کسی خالق کا کمال نہیں ہے بلکہ یہ خود بخود وجود میں آئی ہے اور فطری قوانین (Laws of nature) کے تحت چل رہی ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامل لوگوں کو Gnostic Atheist کہا جاتا ہے۔
2.لاادریت (Gnosticism):
اگناسٹک اس فرد کو کہتے ہیں جو خدا کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے یقین یا علم میں کمی کی کیفیت میں ہو اور کہے کہ مجھے خدا کے وجود کی آگاہی اور ادراک نہیں ہے ، وہ دراصل تذبذب کا شکار ہوتا ہے نہ وہ خدا کی موجودگی کا اقرار کرتا ہے اور نہ ہی انکار ۔ عصر حاضر میں مبشر علی زیدی اس کی مثال ہیں، مبشر زیدی نے کہا کہ وہ اعلانیہ اگناسٹک ہے ، یعنی خدا سے متعلق شک میں مبتلا ہے اور اس کا ماننا ہے کہ وہ علمی جستجو میں ہے اور اسلام میں علم کی راہ میں مرنے والا شہید کہلاتا ہے۔ یہ اس نے اس لیے بتایا کہ اسے ملحد نہ سمجھا جائے۔ ملحدین خدا کا انکار کرتے ہیں جبکہ اگناسٹک خدا کے ہونے یا نہ ہونے کے معاملے میں تذبذب کا شکار ہیں۔
مزید اس نے کہا کہ :
سائنسی فکر اور غیب پر ایمان یکجا نہیں ہو سکتے لہذا ہمیں اختلاف رائے پر اتفاق کر لینا چاہئے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر اسلام آج کے دور میں آتا تو خواتین کا ترکے میں حصہ کم نہ ہوتا، گواہی آدھی نہ ہوتی، انہیں گھروں میں بند رہنے کو نہ کہا جاتا ، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حکم ہوتا، پسند کی شادی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ، اکیسویں صدی میں آنے والا اسلام غلامی کو بر قرار نہ رکھتا، سنگسار کی سزا نہ ہوتی، چور کے ہاتھ نہ کاٹے جاتے ، غیر مذہب کے شہریوں سے جزیہ طلب نہ کیا جاتا۔
3.ڈی ایزم (Deism)‏:
اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ اگر چہ خدا ہی نے اس کا ئنات کو تخلیق کیا ہے، لیکن اس کے بعد وہ اس سے بے نیاز ہو گیا ہے۔ اب یہ کائنات خود بخود ہی چل رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس تحریک کا ہدف رسالت اور آخرت کا انکار تھا۔ اس تحریک کو فروغ ڈیوڈ ہیوم اور مڈلٹن کے علاوہ مشہور ماہر معاشیات ایڈم سمتھ کی تحریروں سے بھی ملا.

عصر حاضر میں الحاد کی مختلف صورتیں:

مری تھومس اپنی کتاب سیکولر بلیف سسٹم کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
“Five well-known nonreligious philosophical position are 1.Naturalism
2.Meterialism
3.Humanism
4.Agnosticism
5.Atheism”
عصر حاضر میں یہ الحاد کی پانچ مشہور صورتیں ہیں جو کہ مختلف ناموں کے ساتھ اپنے نظریے کا پر چار کر رہی ہیں ان میں نیچر لزم جسے عقل پرستی کا نام دیا گیا ہے ، میٹیلر زم جسے مادہ پرستی کہا جاتا ہے اور ہیومنزم جسے بظاہر انسانیت کا درس دینے والا نظریہ گردانا جاتا ہے جبکہ اسلام ان سارے نظریات کو اپنے اندر سموتے ہوئے انسان کو اپنے خالق کو پہچانے کا حل پیش کرتا ہے۔
حافظ محمد عبد القیوم نے بھی اپنے مضمون میں اس کی تائید کی ہے.
عصر حاضر میں لفظ سیکولرزم اپنے دامن میں ایک نیا پہلو لیے ہوئے ہے، لیکن ان سب معانی و مفاہیم کے باوجود سیکولرزم کسی فلسفے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ در اصل دہریت (Atheism) کو قبول کرنے کا نسبتا ایک نرم (Soft) لفظ ہے ، وگرنہ عہد روشن خیالی کے مغربی مفکرین نے تو دہریت کو فروغ دیا تھا، مگر معاشرہ میں عدم قبولیت کی وجہ سے متبادل لفظ سیکولرزم تلاش کیا گیا۔
اس عبارت سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ بنیادی طور پر یہ نظریہ الحادی فکر پر مبنی تھا، عصر حاضر میں اس کی جدید صورت سیکولرزم کی شکل میں سامنے آئی ہے لہذا الحاد کا اگر مقابلہ کرنا ہے تو پہلے بیشتر اسلامی معاشروں میں قابل قبول نظریہ سیکولرزم کو شکست دینی ہو گی ور نہ بر اور است الحاد کو ختم کرنا آسان نہیں ہو گا۔ زمانہ قدیم میں الحاد بالکل واضح اور اپنی اصل شکل میں تھا جس نے صراحتا خدا کے وجود کا انکار کیا تھا، اور خدا کی عدم موجودگی کے نظریہ کو باطنی لباس میں چھپانے کے بجائے ظاہری طور پر پیش کیا تھا، لیکن آج الحاد مختلف صورتوں میں اپنے نظریات کی ترویج کر رہا ہے جس میں سیکولرزم پیش پیش ہے ، مندرجہ بالا حوالوں سے یہ ثار ، ثابت ہوتا ہے کہ عصر حاضر میں الحاد جدید کی نوعیت قدیم دور کے الحاد سے یکسر مختلف ہے اور بہت پیچیدہ ہے جس کا مقابلہ کرنا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور دکھائی دیتا ہے۔