ADBI BATHAK Dour-e-fitan main muslamon ki zima dari

Dour-e-fitan main muslamon ki zima dari

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

fitan

دورِ فتن میں مسلمانوں کی ذمہ داریاں

تحریر :حافظ افراہیم  العاصم

الحاد، اسلام بیزاری، اور دیگر نظریاتی فتنے آج کے دور میں جس شدت سے مسلمانوں کو گھیر رہے ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ فتنے نوجوانوں کے اذہان کو مسموم کر رہے ہیں، ان کے عقائد میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں، اور ان کے دلوں میں دین سے دوری بڑھا رہے ہیں۔ ایسے میں عام مسلمانوں، خصوصاً اہلِ علم کی ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری ذمہ داریاں

1. علم اور شعور حاصل کریں

دین سے دوری کی سب سے بڑی وجہ علم کی کمی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قرآن و سنت کا گہرا مطالعہ کریں، مستند علما کی کتب سے استفادہ کریں اور اپنے عقائد و نظریات کو مضبوط کریں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ”

“بے شک اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔” (سورۃ فاطر: 28)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“مَن يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ”

“جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔” (بخاری: 71، مسلم: 1037)

2. نوجوانوں کی فکری تربیت

آج کا نوجوان مغربی فلسفوں اور الحادی نظریات کے زیرِ اثر آ چکا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم انہیں عقلی، علمی اور منطقی دلائل کے ساتھ دین کی حقیقت سمجھائیں اور ان کے سوالات کے جوابات فراہم کریں۔

قرآن کریم میں فرمایا گیا:

“وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا”

“اور ان (باطل نظریات رکھنے والوں) سے قرآن کے ذریعے بڑا جہاد کرو۔” (سورۃ الفرقان: 52)

3. میڈیا اور سوشل میڈیا پر متحرک ہوں

فتنوں کا ایک بڑا ذریعہ میڈیا اور سوشل میڈیا ہے، جہاں اسلام مخالف پروپیگنڈا عروج پر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اسی میدان میں اتر کر اسلام کا پیغام پھیلائیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً”

“میری طرف سے پہنچاؤ چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔” (بخاری: 3461)

4. عملی نمونہ پیش کریں

اسلام کی سب سے بڑی طاقت اس کی عملی خوبصورتی ہے۔ جب مسلمان خود دین پر عمل کریں گے، تو خودبخود اسلام کی دعوت پھیل جائے گی۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ”

“تم بہترین امت ہو، جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔” (سورۃ آل عمران: 110)

5. اسلامی تاریخ اور تہذیب سے جڑیں

اگر نوجوانوں کو بتایا جائے کہ اسلام نے دنیا کو علم، عدل، تہذیب اور امن دیا، تو وہ کسی بھی فکری حملے کا شکار نہیں ہوں گے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ”

“مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں۔” (بخاری: 10، مسلم: 40)

اہلِ علم کا کردار

مضبوط علمی محاذ قائم کریں:

اہلِ علم کو چاہیے کہ وہ دین کی حقیقی تعلیمات کو واضح کریں اور جدید علمی و سائنسی دلائل کے ساتھ نوجوانوں کے سوالات کے جوابات دیں۔

خطابت اور تحریر کے ذریعے شعور اجاگر کریں:

مساجد، مدارس اور سوشل میڈیا کو مؤثر دعوتی پلیٹ فارمز کے طور پر استعمال کریں۔

مناظروں اور مکالموں میں حصہ لیں:

الحاد اور دیگر فتنہ پرور نظریات کے مقابلے میں مدلل مکالمے کریں اور اسلام کی حقانیت کو اجاگر کریں۔

نتیجہ

یہ وقت غفلت کا نہیں، بلکہ بیداری اور جدوجہد کا ہے۔ اگر ہم نے اپنی ذمہ داری نہ نبھائی، تو ہماری آنے والی نسلیں فکری گمراہی میں مبتلا ہو جائیں گی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دین کا گہرا علم حاصل کریں، نوجوانوں کی فکری تربیت کریں، میڈیا اور دیگر ذرائع کا مؤثر استعمال کریں، اور اپنے کردار سے اسلام کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔

یہی ہماری ذمہ داری ہے، اور یہی وقت کی سب سے بڑی پکار